The Instant View Editor uses a three-column layout, so you really want to use it on a desktop screen that's wide enough. Sorry for the inconvenience.

Back to the main page »

Original

Preview

Link Preview

Issue #14

Sal ahmed
قیمتی موتی اہم مضامین یاداشت:
۰‘ ۳۱ جماعت احمدیہ کے خلاف تازہ فتنہ میں میاں فخر الدین صاحب ملتانی کا حصہ از سیدنا حضرت میرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ جماعت احمدیہ کے خلاف تازہ فتنہ میں میاں فخر الدین صاحب ملتانی کا حصہ (تقریر فرمودہ ۲۶۔ جون ۱۹۳۷ء بمقام مسجد اقصیٰ قادیان) تشّہدّ، تعوّذ ،سورۃ فاتحہ اور سورۃ النساء کی آیات ۵۹تا ۶۶ کی تلاوت کے بعد فرمایا:۔ مؤمن کی پیدائش ایک منفرد پیدائش نہیں ہوتی بلکہ اسے اللہ تعالیٰ نے ایک زنجیر کی کڑی بنایا ہے۔ ایک کافر جب اپنے وجود کو دیکھتا ہے تو اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ فلاں کام کا نتیجہ میرے حق میںکیانکلے گا لیکن مؤمن اس نقطۂ نگاہ سے دیکھتا ہے کہ اس کام کا نتیجہ اس زنجیر کے حق میں کیا ہوگا جس کی وہ ایک کڑی ہے۔ بے شک ایک لوہے کی کڑی اگر مضبوط سے مضبوط اور اعلیٰ سے اعلیٰ ہو تو بھی دو چار یا پانچ روپیہ میں مل جائے گی لیکن اگر وہ اس زنجیر کا ایک حصہ ہے جو شاہی خزانہ کے صندوق پر بندھی ہوئی ہے تو اُس کی قیمت بہت بڑھ جائے گی اور اِسی نسبت سے اس کی کڑیوں کی قیمت بھی بڑھ جائے گی۔ اگر تو وہ ایک الگ کڑی ہوتی تو اس کے کٹ جانے سے اوّل تو چند آنوں کا نہیں تو دو چار یا پانچ روپیہ کا نقصان ہوتا لیکن اس زنجیر کاحصہ ہونے کی صورت میںجو خزانہ کے بکس کے اردگرد لپٹی ہے، ٹوٹ جانے کی صورت میں کروڑوں روپیہ کا نقصان ہوگا اس لئے دونوں کڑیوں کی ذمہ داری بالکل اور ہے۔ دونوں کی اہمیت ایک نہیں ۔ الگ الگ ہونے کی صورت میں ان کی قیمت ایک ہے مگر زنجیر میں داخل ہو کر ایک کی حیثیت بالکل بدل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے بار بار توجہ دلائی ہے کہ تم خدا کی فوج کے سپاہی ہو اور اگر انفرادی طور پر تمہارے اندر خلل واقع ہوگا تو اس سے ساری فوج میں خلل آئے گا۔ دنیا میں ہزار ہا ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایک زبردست فوج صرف اس وجہ سے شکست کھا گئی کہ اس کے چند سپاہیوں نے کمزوری دکھائی، وہ اپنی جگہ چھوڑ کر بھاگے جس سے خلاپیدا ہو گیا اور دشمن کو رستہ مل گیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے زمانہ کی ہی بات ہے کہ اُحد کی جنگ کے موقع پر آپ نے ایک درّہ پر دس سپاہی مقرر کئے جو اسلامی فوج کی پُشت کی جانب تھا اور آپ نے اُن سے فرمایا کہ تم نے یہاں سے نہیں ہِلنا۔ باقی فوج خواہ ماری جائے یا جیت جائے حتیّٰ کہ دشمن بھاگ بھی جائے، تو بھی تم یہیں کھڑے رہو۔ گویا یہ کام اُس کڑی کے سپرد تھااور بظاہر یہ کوئی کام نہیں کہ ایک درّہ پر کھڑے رہو، خواہ فوج جیت جائے یا ہار جائے، بظاہر اس بات کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی لیکن بعدکے واقعات سے اِس کی اہمیت ظاہرہو جاتی ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دشمن کو شکست ہوئی اور وہ بھاگے تو اِن دس سپاہیوں نے اپنے افسر سے کہا کہ اب تو دشمن کو شکست ہو گئی ہے، ہمیں بھی اجازت دیں کہ جہاد کے ثواب میں شریک ہوں لیکن افسر نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم تو یہیں کھڑے رہنے کا ہے۔ مگر انہوں نے کہا کہ اتنا غلوّ نہیں کرنا چاہئے، کچھ تو اجتہاد سے بھی کام لینا چاہئے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا منشاء تو اِس قدر تاکید سے یہ تھا کہ بے احتیاطی نہ کرنا یہ مطلب تھوڑا ہی تھا کہ واقعی اگر فتح حاصل ہو جائے تو بھی یہاں سے حرکت نہ کرنا۔ افسر نے جواب دیا کہ مجھے تو اجتہاد کا حق نہیں۔ مگر انہوں نے اُس کے مشورہ کو قبول نہ کیا اور کہا کہ یہ بالکل جاہلانہ مشورہ ہے اور اس میں اطاعت کے لئے ہم تیار نہیں ہیں اور ہم جہاد کے ثواب سے محروم نہیں رہنا چاہتے چنانچہ تین آدمی وہاں رہے اور باقی وہاں سے ہٹ آئے۔ اُس وقت تک حضرت خالد بن ولید مسلمان نہ ہوئے تھے، خالد بہت زیرک نوجوان تھے، دشمن بھاگ رہا تھا کہ اُن کی نظر درّہ پر پڑی اور دیکھا کہ وہ خالی ہے، انہوں نے جھٹ عکرمہ کو اشارہ کیا کہ ابھی شکست کو فتح میں بدلا جاسکتا ہے۔ چنانچہ انہوں نے چند سَو سپاہی ساتھ لئے اور پیچھے سے آ کر اس درّہ پر حملہ کر دیا۔ وہاں صرف تین مسلمان تھے باقی جا چکے تھے، وہ تینوں شہید ہو گئے اور عین اُس وقت جب مسلمان دشمن کو بھگاتے ہوئے لے جا رہے تھے، پیچھے سے حملہ ہوا اور اچانک حملہ کی وجہ سے صحابہ کے پاؤں اُکھڑ گئے۔ رسول کریم ﷺ صرف بارہ (۱۲) صحابہ کے ساتھ میدان میں رہ گئے اور جب دشمن نے آپ پر پورے زور کے ساتھ حملہ کیا تو ان بارہ (۱۲) میں سے بھی بعض مارے گئے اور بعض دھکیلے جا کر پیچھے ہٹ گئے۔ حضرت ابوبکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ اِسی ریلے میں پیچھے دھکیلے گئے اور آخر صرف رسول کریم ﷺ اکیلے رہ گئے اور چاروں طرف سے آپؐ پر پتھر برسائے جا رہے تھے حتیّٰ کہ خَود کی کِیلیں سر میں دھنس گئیں اور آپ بے ہوش کر زمین پر گر گئے اور دشمن نے خیال کر لیا کہ شاید آپ دفات پا گئے ہیں۔ اور اس ہنگامہ میں جو صحابہؓ شہید ہوئے، اُن کی لاشیں بھی آپ ک
Type of issue
Submitted via the Previews bot
Reported
May 28, 2021